- admin
- ستمبر 24, 2024
- 438
- 1
- Add Comment
لٹیروں، دہشتگردوں اور بدمعاشوں کی سہولت کار عدلیہ
۔ اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کو راولپنڈی کے مشہور بدمعاش تاجی کھوکھر گروپ کا دست راست مانا جاتا ہے۔ تاجی گروپ نے ایک وکیل کو قتل کر دیا تھا۔ اس مقدمے سے جسٹس محسن اختر کیانی نے انکی جان چھڑائی۔ نیز تاجی گروپ کے زمینوں پر قبضوں کے مقدمات میں محسن اختر کیانی انکو ریلیف دیتے ہیں۔
2۔ پاکستان کے مشہور بدمعاش عزیر جان کے باپ کو ارشد پپو نے تاوان کے لیے اغواء کیا تھا اور تاوان نہ ملنے پر قتل کر دیا تھا۔ جس پر عزیز جان بلوچ نے کئی سال کورٹ کچہری کے چکر لگائے۔ لیکن پاکستان کی کرپٹ عدلیہ سے انصاف نہیں ملا جس کے بعد اس نے اپنا بدلہ لینے کا فیصلہ خود کیا اور چند سال بعد وہ کراچی کا سب سے بڑا بدمعاش اور دہشت کی علامت بن گیا۔ عزیر جان بلوچ کو بدمعاش اور دہشتگرد بنانے والی ہماری عدالتیں ہیں۔
3۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو 2005 میں دہشتگردی اور بغاؤت وغیرہ کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ اس کو 2006 میں بلوچستان کی ایک عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ اس کے بعد سب اب تک اسکی تنظیم نے بلوچستان میں کم و بیش 4 ہزار حملے کیے ہیں اور سینکڑوں معصوم لوگوں کی جانیں لی ہیں۔ کیا ان معصوموں کا خون ان ججوں کی گردن پر نہیں جو بیک جنبش قلم ایسے دہشتگردوں کو رہا کر دیتے ہیں؟
4۔ ارسلان افتخار کے حوالے سے شعیب سڈل نامی کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق موصوف نے 5 کروڑ 13 لاکھ ٹیکس چوری کیا ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر سے 90 کروڑ روپے کے ٹیکس غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے۔ ملک ریاض نے الزام لگایا کہ مجھ سے 30 کروڑ روپے کی رشوت لی۔ رشوت کی رقم اس کے بینک اکاؤنٹ میں موجود بھی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس خود سنا اور ارسلام افتخار کو باعزت بری کر دیا۔ ملزم ارسلان افتخار کیس سننے والے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری کا بیٹا تھا۔
5۔ کلعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق پر دہشتگردی کے 44 مقدمات تھے جن میں سے 2 مقدمات میں اس نے عدالت میں اقبال جرم کیا تھا جس پر اسکو سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس کے باؤجود اس کو ضمانت پر رہا کر دیا جس کے دو دن بعد اس نے بلوچستان میں ہزارہ برادری پر حملہ کروا کے 100 مزید لوگوں کو شہید کروا دیا۔ کیا انکا خون ہماری سپریم کورٹ کے سر نہیں جاتا؟
6۔ دسمبر 2019 میں وکلاء کے ایک جتھے نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کر دیا۔ مریضوں کے منہ سے اکسیجن ماسک تک کھینچے گئے۔ اسپتال میں آگ لگائی گئی اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ اسپتال میں دھواں بھر گیا۔ وکیلوں کے اس حملے میں تین مریض جانحق ہوگئے۔ اس حملے کی قیادت بیرسٹر حسان نیازی کر رہا تھا۔ حسان نیازی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کا بھانجا اور خود وکیل تھا۔ لیکن اسپتال پر اس حملے میں بیرسٹر حسان نیازی اور اس کے کسی ساتھی وکیل کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔
عدلیہ سے ریلیف، پولیس اور فوج کے ہاتھوں ہلاکت ہی آخری آپشن
1۔ کاشف چیمہ پنجاب کا مشہور ڈکیت اور بدمعاش تھا۔ اس کو پولیس نے پکڑا لیکن عدلیہ کی مہربانی سے رہا ہوگیا۔ جس کے بعد اس نے اس پولیس افسر سے انتقام لینے کا اعلان کیا جس نے اسکو گرفتار کیا تھا۔ اس نے اس افسر پر کئی حملے کیے حتی کہ اس کے گھر پر بھی۔ جس کے بعد پنجاب کے مشہور انکاؤنٹر سپیشلسٹ عابد باکسر کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔ ایسا پاکستان میں سینکڑوں ہزاروں کیسز میں ہوا ہے کہ عدلیہ سے بدمعاشوں اور دہشتگردوں کو ریلیف مل جاتا ہے اور اکثر پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی ان ناسوروں سے عوام کی جان چھڑاتے ہیں۔
2۔ پنجاب کا مشہور ڈاکو ملنگی عورتوں کی عزتیں لوٹنے کے لیے مشہور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے 50 سے زائد عورتوں کا ریپ کیا۔ جن میں حاملہ خواتین بھی تھیں۔ ایک 8 ماہ کی حاملہ کا ریپ کیا اور وہ اسی دوران مر گئی۔ تو اس مری ہوئی عورت کا دوبارہ ریپ کیا۔ اس کو کوئی جج کبھی سزا نہیں سنا سکا۔ حتی کہ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
3۔ پشاور اے پی ایس حملے میں ملوث تمام 13 دہشت گردوں کو سیکورٹی فورسز نے انجام تک پہنچایا۔ 7 حملہ آوروں کو دوران حملہ مار دیا۔ 6 اہم دہشت گردوں گرفتار کر کے ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا اور انہیں موت کی سزا سنائی۔ ان میں سے 5 کو پھانسی دے دی گئی جبکہ ایک دہشت گرد کی سزا پر پاکستان کی سپریم کورٹ نے عمل درآمد رکوا دیا۔ اس نے اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ آرمی عدالتیں پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں۔ اے پی ایس حملے میں ملوث وہ دہشتگرد پاکستان کی عدلیہ کی مہربانی سے آج بھی زندہ ہے۔
سست رفتار مقدمات
۔ سال 2016 میں سپریم کورٹ نے رحیم یار خان کے دو بھائیوں کو قتل کے الزام سے باعزت بری کرنے کا حکم دیا۔ اس پر غلام قادر اور غلام سرور کی فیملیوں نے احتجاج کیا کہ ان دونوں بھائیوں کو تو ایک سال پہلے پھانسی دی جاچکی ہے۔ ان کے حق میں کی گئی اپیل دیکھنے کا ہماری سپریم کورٹ کو کئی سال تک وقت ہی نہیں ملا۔
۔ نومبر 2020 میں ھائی کورٹ نے پھانسی کی سزا پانے والے محمد ممتاز کو بری کر دیا۔ اس دوران اس کو جیل میں 13 سال ہوچکے تھے۔ اگر بےقصور تھا تو اس کو 13 سال جیل میں رکھنے والے ججوں کا کیا کیا جائے؟ اگر قصوروار تھا تو اسکو چھوڑا کیوں؟
۔ سال 2023 میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی اپنی کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے کے خلاف درخواست خارج کر دی۔ یہ درخواست پرویز مشرف نے 2013 میں دائر کی تھی۔ درخواست سپریم کورٹ کے جج تک پہنچنے میں دس سال لگے اور اس دوران دو الیکشن اور بھی ہوئے اور پرویز مشرف صاحب وفات پا گئے۔
۔ مارچ 2024 کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 9 کنال اراضی کے مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ 3 کنال شاملاتی زمین خریدار کو نہیں مل سکتی۔ سپریم کورٹ کو اس نیتجے پر پہنچنے میں 110 سال کا وقت لگا۔ یہ کسی بھی مقدمے میں سست ترین انصاف کا عالمی ریکارڈ ہے جو پاکستانی ججوں کے حصے میں آیا۔
سوالات
۔ کیا پچیس کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں کوئی ایک شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اس کو پاکستان کی عدالتوں سے فوری اور سستا انصاف ملا ہے؟
۔ پاکستان میں 20 سال کے دوران دہشتگردوں نے 80 ہزار جانیں لیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہزاروں دہشتگردوں کو گرفتار کیا۔ لیکن کیا کوئی ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے کسی ایک دہشتگرد کا نام بتا سکتا ہے جس کو ہماری عدلیہ نے سزا سنائی ہو اور اسکو انجام تک پہنچایا ہو؟
۔ پاکستان میں آج تک ججوں اور وکیلوں کے خلاف جلاؤ گھیراؤ، دہشتگردی، قتل اور ریپ کے ہزاروں کیسز بنے ہیں۔ کیا کبھی کسی ایک جج یا وکیل کو سزا ملی؟
دہشتگردوں کے حقوق کی محافظ عدلیہ
جولائی 2023ء کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی اور امجد رفیق پر مشتمل بینچ نے دہشتگرد تنظیم سے تعلق اور گمراہ کن مواد پھیلانے کے الزام میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اور انسداد دہشتگردی سے 10 سالہ قید کی سزا پانے والے مجرم کو یہ کہہ کر بری کر دیا کہ "ملزم یا مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر اس کے فون کا ڈیٹا نکلوانا اچھی روایت نہیں۔ کیونکہ یہ پرائیویسی کے حقوق کے خلاف ہے۔"
مجرموں کی سہولتکار عدلیہ
حال ہی میں پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ابراہیم نے 23 ہزار پینڈنگ کیسز سے آنکھیں چرا کر پی ٹی آئی کے نو مئی میں ملوث باغیوں کے لئے اعلان عام کیا کہ "جس جس مجرم کو ریلیف چاہئیے وہ پشاور ہائیکورٹ رجوع کرے انصاف مجرم کی دہلیز پر دستیاب ہوگا۔ "
اس ڈیل کے لئے پہلے ٹیسٹ کیس کے طور پر زرتاج گل کا کیس ہینڈل کیا گیا۔ جسے رات گئے نہ صرف ضمانت دی گئی بلکہ دیگر اداروں کو بھی روایات اور تہذیب کی خوب جھاڑ پلائی گئی۔
فرط جذبات میں جسٹس ابراہیم یہ بھول گئے تھے کہ وہ پختون کلچر کی روایات اور رسوم و رواج کی پاسداری کے لئے نہیں بلکہ آئین و قانون کے تحفظ کے لئے اس منصب پر فائز ہیں۔ اگر عورت کی گرفتاری خلاف قانون ہوتی تو سمجھ میں آتی لیکن اسے خلاف روایت قرار دے کر نہ صرف ریلیف دیا بلکہ مجرمہ کو اپنے گھر رات بھر پناہ دے کر انصاف کے ساتھ ساتھ پختون روایات کا جنازہ نکالا گیا۔
ایسے میں جب بات عدالتی اصلاحات کی ہو تو فنڈامینٹل رائٹس مجروح ہونے کا واویلا کیا جاتا ہے۔
کیا 23 ہزار کیسز پینڈنگ چھوڑ کر 25 کروڑ میں انصاف بیچنے پر فنڈامینٹل رائٹس مجروح نہیں ہوتے؟
Anonymous
ستمبر 24, 2024 | 17:19 شامگزشتہ 5 سالوں میں 612 ملزمان پولیس مقابلے میں ہلاک کئے گئے
وجہ؟؟
کیونکہ 95فیصد خطرناک جرائم میں ملوث بآثر ملزمان عدالتوں نے باعزت بری کر دئیے
پھر خرابی کہاں پر ہے؟