- admin
- اکتوبر 02, 2024
- 329
- 0
- Add Comment
جسٹس منیب اخترکی آرٹیکل 63 اے کی سماعت سے غیر حاضری
جسٹس منیب اخترکی آرٹیکل 63 اے کی سماعت سے غیر حاضری۔۔۔ سیاسی وابستگی کھل کرسامنے آگئی
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس منیب اختر کے عدالت میں پیش نہ ہونے کے باعث ملتوی کر دی گئی۔آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم کمرہ عدالت پہنچے تاہم جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا اور ریمارکس دیے کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کر دیا، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کا خط پڑھ کر سنایا۔جس میں جسٹس منیب اختر کی جانب سے کہا گیا کہ کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ریمارکس دئیے گئے کہ ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہو سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے آج باقی مقدمات کی سماعت کی ہے اور وہ ٹی روم میں بھی موجود تھے مگر سماعت میں شامل نہ ہونا اُن کی اپنی مرضی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس منیب اختر کی جانب سے یہ سب کچھ کرنا کوڈ آف کنڈٹ کے خلاف جاتا ہے، ان کے اس طرح بینچ میں نہ بیٹھنے سے اب یہ تاثر زور پکڑ چکاہے کہ ان کے کچھ سیاسی عزائم ہیں کچھ سیاسی وابستگیاں ہیں اور وہ انہیں اپنی اصل ذمہ داری سے دور کر رہی ہیں جو آئین و قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بینچ تشکیل دیا جاتا ہے اس میں ججز کے نام ڈالے جاتے ہیں تو اگر کوئی جج اس بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہتا تو وہ اس حوالے سے باقاعدہ چیف جسٹس کو خط لکھ کر اپنی عدم دستیابی کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اوریہ اس کا حق بھی ہے مگر عین موقع پر بینچ میں نہ آنا اور آج جب سماعت شروع ہوئی تو جسٹس منیب اختر نہیں آئے اس سے کوئی اچھا تاثر نہیں کیا گیا بلکہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس ملک کے آئین کے ساتھ کون لوگ کھلواڑ کر رہے ہیں اورکون لوگ ہیں جو آئینی بحران پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔؟
قانونی ماہرین کاکہنا ہے کہ22 اکتوبر 2022ء کو جسٹس منیب اختر نے اس حوالے لکھا تھا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس وقت جسٹس منیب اختر نے سیاسی دباؤکے تحت یہ سب کچھ لکھا تھا اور آج اس سے خود ہی جسٹس منیب صاحب پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جسٹس منیب اختر کا بینچ میں شامل نہ ہونا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے پی ٹی آئی کے سہولت کار جج وقت لینا چا رہے اور اس معاملے کو کھینچ تان کر تاخیری حربے استعمال کرکے اس کو 25 اکتوبر تک لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ نیا چیف جسٹس اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے اور جوسہولت کاری وہ پی ٹی آئی کو دینا چاہتے ہیں دے سکیں، خود بانی پی ٹی آئی بار بار یہ کہتا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کے آتے ہی وہ حکومت میں ہوگا اس کا کیا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں معاملات طے ہو رہے ہیں جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔
View Summary