- admin
- اکتوبر 01, 2024
- 312
- 0
- Add Comment
آئینی عدالت کا قیام کیوں ضروری ہے۔۔؟ اعداد و شمار کی روشنی میں اہم شواہد
26 آئینی ترامیم کے حوالے سے کچھ مفاد پرست عناصرکی جانب سے پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے اور یوں اس کا راستہ روکنے کیلئے اسے آمریت سے تشبیہ دیکر مزید گرداڑائی جا رہی ہے، ان آئینی ترامیم کے حوالے سے زمینی حقائق جانے کے بغیر اس کا راستہ روکنے کیلئے سیاست کی جا رہی ہے، انہیں آئینی ترامیم میں ایک ترمیم آئینی عدالتوں کے قیام کی ہے، ان آئینی عدالتوں میں صرف آئین کی تشریح، آئینی مقدمات، سیاسی جماعت کے مقدمات وغیرہ ہی سنے جائیں گے اور یہ کوئی پاکستان میں انوکھا کام نہیں ہونے جا رہا ہے دنیا کے کئی ممالک میں یہ آئینی عدالتیں چل رہی ہیں۔
یہ آئینی عدالتیں کیوں ضروری ہیں۔۔۔؟ اس کا جواب میں نیچے دیئے گئے اعداد و شمار سے مل جائے گا اور بات سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ آخر کیا وجوہات ہیں اس آئینی عدالت کے قیام کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ پاکستان کا عدالتی نظام شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے، سپریم کورٹ سے لیکر نیچے ڈسٹرکٹ اور سیشنز کورٹس تک عام عوام کے مقدمات کی فائلوں کی ایک تہہ بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ WJP میں پاکستان کی پوزیشن 130 ویں ہے۔
اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت 51370، لاہور ہائیکورٹ میں 179425، سندھ ہائیکورٹ میں 131714، بلوچستان ہائیکورٹ میں 4952، پشاور ہائیکورٹ میں 39821، اسلام آباد ہائیکورٹ میں 17189،، ڈسٹرکٹ کورٹس پنجاب میں 1384574، ڈسٹرکٹ کورٹس خیبرپختونخوا میں 264789، ڈسٹرکٹ کورٹس سندھ میں 113677، ڈسٹرکٹ کورٹس بلوچستان میں 17818 اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں 51414 کیسز زیر التوا ہیں۔
سپریم کورٹ میں اس وقت سول پٹیشن 27209، سول اپیلیں 9177، کرمنل پٹیشنز 8356 اور کرمنل اپیلیں 861 زیر التوا ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں سول پٹیشنز 52064، سول اپیلیں 643، کرمنل پٹیشنز 37748، رٹ پٹیشنز 84274 اور ٹیکس بینکنگ پٹیشنز 4696 زیر التوا ہیں، ڈسٹرکٹ کورٹس پنجاب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں اس وقت144826، مجسٹریٹس کے پاس 1167553 جبکہ ٹریبونلز اور سپیشل کورٹس میں 72195 اپیلیں زیر التوا ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ میں اس وقت 60 ججز ہیں جبکہ 24 آسامیاں خالی ہیں، سندھ ہائیکورٹ میں 40 جج ہیں اور 9 آسمامیاں خالی ہیں، پشاور ہائیکورٹ میں 30 جج ہیں اور 16 آسامیاں خالی ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں 8 جج ہیں اوریہاں کوئی آسامی خالی نہیں ہے، بلوچستان ہائیکورٹ میں 14 جج ہیں اور 4 آسامیاں خالی ہیں۔
پنجاب میں ڈسٹرکٹ، سیشنز اور مجسٹریٹس 2364 ہیں جبکہ 770 آسامیاں خالی ہیں، سندھ کے ڈسٹرکٹ، سیشنز اور مجسٹریٹ عدالتوں میں ججوں کی تعداد 621جبکہ 51 آسامیاں خالی ہیں، صوبہ خیبرپختونخوا میں ڈسٹرکٹ، سیشنز اور مجسٹریٹس کی تعداد 596 ہے جبکہ 111 آسامیاں خالی ہیں۔ بلوچستان میں ڈسٹرکٹ، سیشنز اور مجسٹریٹس کی تعداد 292 ہے اور 74 آسامیاں خالی ہیں جبکہ اسلام آباد ڈسٹرکٹ، سیشنز اور مجسٹریٹس کی تعداد 103 ہے اور 31 آسامیاں خالی ہیں۔
اگر بات دہشتگردی سے متعلق مقدمات کی جائے گی جائے تو اس میں بھی ایک کثیر تعداد زیر التوا مقدمات کی ہے جس سے بلاشبہ دہشتگردی کیخلاف جنگ متاثر ہو رہی ہے۔ سال 2020سے2023کے دوران 1650مقدمات زیرِ التوا رہے، 6550 دہشتگردوں کا چالان پیش کیا گیا جن میں سے 774کو سزائیں ہوئیں جبکہ 911کو بَری کر دیا گیا۔465دہشتگردوں نے بریت کی اپیل دائر کی، جن میں 104 کی سزا برقرار جبکہ 90کے خلاف سزاوں کو ختم کر دیا گیا۔
اگر بات سال 2024کی کی جائے تو 2024 میں دہشت گردوں کی سزا کی شرح عام طور پر پ گزشتہ 4 سالوں کی طرح 10.4فیصد رہی۔یہ شرح بنیادی طور پر ابتدائی سزاوں کی بنیاد پر ہے، ان میں سے زیادہ تر کو اپیل کے مرحلے میں ہی الگ کر دیا گیا ہے۔مجموعی طور پر اب تک 2024میں 893چالان پیش کئے گئے، جن میں 93کو سزائیں ہوئیں یعنی 10.4فیصد رہا۔خیبر پختونخوا میں 414چالان پیش کئے گئے جن میں سے صرف 3کو سزائیں ہوئیں یعنی تناسب 0.7فیصد رہا۔پنجاب میں 267چالان پیش کئے گئے جن میں سے صرف63کو سزائیں ہوئیں یعنی تناسب23.5فیصد رہا۔اسی طرح سندھ میں 126چالان پیش کئے گئے جن میں سے صرف16کو سزائیں ہوئیں یعنی تناسب12.6فیصد رہا۔بلوچستان میں 86چالان پیش کئے گئے جن میں سے صرف11کو سزائیں ہوئیں یعنی تناسب12.7فیصد رہا۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں قانونی ماہرین کے مطابق26 ویں آئینی ترامیم میں آئینی عدالت کا قیام نہایت ضروری ہے تاکہ زیر التوا مقدمات کے اس کثیر بیک لاگ کو ختم کرنے میں ناصرف مدد ملے گی، عوام کو فوری انصاف حاصل ہوگا بلکہ پاکستان کی WJP کی درجہ بندی میں بہتری آئے گی۔
View Summary